کتنا بے نیاز ہے تو

بنجر کو کیا سرسبز

سرسبز کو کیا بنجر

کہیں پتھر سے برسایا پانی

کہیں لایا تو سیلاب

کہیں مینہ برساتا ہے

کہیں ترسے زمین اک بوند کو برسوں

کہیں فراق، کہیں وصل

کہیں آرزوئیں ، کہیں بے حسی

کسی سے چھین کے آزمائے تو

کہیں دے کہ کیا فاش

ہیں یہ عجب رمز تیری

اک ادنہ سہ ذرہ میں

بے خودی میں گم کہیں

رگ رگ سے واقف تو

شہہ رگ سے قریب تر

کبھی تو چاند کی چاندنی میں

کبھی پھاڑوں ، صحراوءں میں

ہے پھول کی خوشبو میں

پنچھیوں کے گیتوں میں

ہے ہر جگھہ ، ہر سو تو

تجھے کہاں کہاں میں پاوءں

تیرا نام لوں، تیرا ذکر ہو

دل مضطرب کو قرار ہو

تیرا در ملے ، میرا سر جھکے

سر جھکے ، پھر دل جھکے

جھک کہ میں آباد ہوں

ہے سنا اس میں لطف بڑا

اس ادنہ کو بھی کر میسر تو

چاھے اک دفعہ ، 

چاھے اک لمحے کو

مجھے تو ملے ، میں آباد ہوں

سکوت چھائے پھر چار سو

جو تیرا در ملے ، میں آباد ہوں

یہ بھاگنا، بھکنا،بھٹکنا

یہ آرزوئیں بے تحاشا،

آخر کب تک!

مٹی سے ہے مٹی ہونا جب

یہ دربدری آخر کب تک!

تیرے در کے ٹھکرائے مولا

نہ اس جھاں کہ، نہ اس جھاں کہ

تیرے آسرے ہوں پروردگار

تو ٹھکرائے یہ تھام لے 

یہ گداگر اب یہیں کا ہو چکا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖋 فرزانہ شاھ

Comments

Popular posts from this blog

A long-lost half

There's memory of you in my heart